Wednesday 21 June 2017

ہو نہ پہچان اتنا توڑا ہے

ہو نہ پہچان اتنا توڑا ہے
زیست اپنی نے یوں نچوڑا ہے

دستکیں آج بھی مسلسل ہیں
جانے کس کس کو در سے موڑا ہے

گو میسر یہاں لباس بہت
خود سے تنہائیوں کو اوڑھا ہے

ہم نے بس عشق اک تری خاطر
خود سے اپنا نصیب پھوڑا ہے

لڑ کے جاتا تو ہم منا لیتے
اس نے تو مسکرا کے چھوڑا ہے

ہم کو ٹکڑوں میں ہی دکھاتا ہے
ہم نے شیشہ یہ لاکھ جوڑا ہے

زندگی تک غرور ہیں سارے
موت نے ہر بھرم کو توڑا ہے

راحتوں اور خود کے بیچ یہاں
ایک ابرک تو خود ہی روڑا ہے

اتباف ابرک

No comments:

Post a Comment