ہو نہ پہچان اتنا توڑا ہے
زیست اپنی نے یوں نچوڑا ہے
دستکیں آج بھی مسلسل ہیں
جانے کس کس کو در سے موڑا ہے
گو میسر یہاں لباس بہت
خود سے تنہائیوں کو اوڑھا ہے
ہم نے بس عشق اک تری خاطر
خود سے اپنا نصیب پھوڑا ہے
لڑ کے جاتا تو ہم منا لیتے
اس نے تو مسکرا کے چھوڑا ہے
ہم کو ٹکڑوں میں ہی دکھاتا ہے
ہم نے شیشہ یہ لاکھ جوڑا ہے
زندگی تک غرور ہیں سارے
موت نے ہر بھرم کو توڑا ہے
راحتوں اور خود کے بیچ یہاں
ایک ابرک تو خود ہی روڑا ہے
اتباف ابرک
No comments:
Post a Comment