Wednesday 21 June 2017

کامل کی تلاش

دائرے

خواہش

یاد

‏دن تو اس شہر کی رونق میں گزر جاتا ہے
یاد کچھ لوگ سر شام بہت آتے ہیں !!!!

لیکن!

تم مرے دل کی خلش ہو لیکن
دور ہو جاؤ ۔۔ یہ منظور کہاں
ایک سایا، جو کسی سائے سے گہرا بھی نہیں
جسم بھی جس کا نہیں ، دل نہیں ، چہرا بھی نہیں
خال و خد جس کے مجھے ازبر ہیں ،
دید ۔۔۔ جس طرح کوئی دیکھتا ہو
راستہ، شیشے کی دیوار کے پار
گفتگو ۔۔۔ جیسے کوئی کرتا ہو
اپنے ہی کان میں اک سرگوشی
لفظ ۔۔۔ جیسے کہ ہو نظمائی ہوئی خاموشی
یہ تعلق ہے بس اک نقش کہ جو ریت پہ کھینچا جائے
بادِ حیراں سے اڑانے کے لیے
موجۂ غم سے مٹانے کے لیے
دشت اس دل کی طرح اپنی ہی تنہائی میں یوں سمٹا ہے
جیسے پھیلا تو فلک ٹوٹ پڑے گا اس پر
کارواں کوئی نہ گزرا کسی منزل کی طرف
گھنٹیاں بجتی رہیں ۔۔۔ نیند کی خاموشی میں
شام ہر روز اترتی ہے سرِ جادۂ جاں
وہی اک کہنہ اداسی لے کر
زندگی ڈوبتی جاتی ہے کسی سرد اندھیرے میں ۔۔ مگر
جگمگاتی ہے بہت دور کسی گوشے میں
ایک چھوٹی سی تمنا کی کرن
سائے کا لمس ہے اس دل کی لگن
تم مرے ٹوٹے ہوئے خواب کا اک ذرہ ہو
جو مری آنکھ میں چبھتا ہے تو خوں بہتا ہے
پھر بھی کھو جاؤ یہ منظور کہاں
تم مرے دل کی خلش ہو لیکن ۔۔۔۔۔

ہو نہ پہچان اتنا توڑا ہے

ہو نہ پہچان اتنا توڑا ہے
زیست اپنی نے یوں نچوڑا ہے

دستکیں آج بھی مسلسل ہیں
جانے کس کس کو در سے موڑا ہے

گو میسر یہاں لباس بہت
خود سے تنہائیوں کو اوڑھا ہے

ہم نے بس عشق اک تری خاطر
خود سے اپنا نصیب پھوڑا ہے

لڑ کے جاتا تو ہم منا لیتے
اس نے تو مسکرا کے چھوڑا ہے

ہم کو ٹکڑوں میں ہی دکھاتا ہے
ہم نے شیشہ یہ لاکھ جوڑا ہے

زندگی تک غرور ہیں سارے
موت نے ہر بھرم کو توڑا ہے

راحتوں اور خود کے بیچ یہاں
ایک ابرک تو خود ہی روڑا ہے

اتباف ابرک

Bano Qudsia